برصغیر میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بعد حضرت شیخ الہند محمودحسن دیوبندی کی خدمات سب سے نمایاں ہیں،
حضرت شاہ ولی اللہ
نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ملتِ اسلامیہ کو رام راج یا
برہمن سامراج کا لقمہ تر بننے سے بچایا اور حضرت شیخ الہند نے برصغیر میں برٹش امپائر
کے استحکام اور اسلام کے خلاف انگریز ہندو ملی بھگت کے بعد ملتِ اسلامیہ
کی بقاء و رہنمائی کا پروگرام دیا برصغیر کی تاریخ
میں آپ کا کردار سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، آپ نہ
صرف مدرسہٴ دیوبند کے پہلے طالب علم تھے؛ بلکہ بانی مدرسہ دیوبند
حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے حقیقی علمی، فکری
وعملی جانشین بھی تھے۔ ۱۸۵۷/ کی شکست کے بعد برٹش امپائر اور برہمن سامراج نے ملی
بھگت کرکے ملت اسلامیہ کو غلام اور شودربنانے کی منصوبہ بندی
کرلی تھی، ملتِ اسلامیہ ہند کسی محاذ پر دشمن کا سامنا
کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی اور حوصلہ ہارچکی تھی؛
کیونکہ ۱۸۵۷/ میں علماء، مشائخ اور دینی جزبہ رکھنے والے
مسلمان ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں قتل وپھانسی پر
چڑھ گئے یا کالا پانی وسلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیے
گئے، ایسے نازک حالات میں ملتِ اسلامیہ کے لیے اپنا سب
کچھ نچھاور کردینے والا یہ جاں فروش طبقہ (علمائے حق) ملت کے زخموں کو
مندمل ہونے اور ایک نئی نسل کی تیاری کے لیے
نئی حکمت عملی پر عمل شروع کردیا، وہ حکمتِ عملی یہ
تھی کہ کچھ عرصہ کے لیے دشمن کے سامنے سے ہٹ کر اسے غافل کردیا
جائے اور تعلیم و تربیت اور جہاد سے لیس ایک اور نسل تیار
کی جائے، اس مشن کی خاطر دیوبند میں مدرسہ اور گنگوہ میں
خانقاہ کے نام سے کام شروع ہوا، بقول حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی: ”میں نے (دشمن کو دھوکہ میں
رکھنے کے لیے) اپنے مشن پر علم کی چادر ڈال دی ہے“ اور بقول
حضرت شیخ الہند:
”حضرتُ الاستاذ
نے یہ مدرسہ کیا محض درس وتدریس کے لیے قائم کیا
تھا؟ بلکہ شاملی کی شکست کے بعد تلافی کے لیے یہ
پُرحکمت اقدام تھا“۔
آج بھی ہم حضرت شیخ الہند
مولانا محمودحسن دیوبندی
کی پالیسی وحکمت عملی کے دور میں ہیں، برصغیر
میں دین کے تمام تر شعبوں کا سلسلہ حضرت شیخ الہند کی ذات پر منتہی ہوتا ہے،
حضرت تھانوی
ہوں یا علامہ انورشاہ کشمیری، حضرت مدنی ہوں یا مولانا محمد الیاس یا مولانا شبیر
احمد عثمانی۔
بیسویں صدی کے تقریباً سب ہی اکابر حضرت شیخ
الہند کے شاگرد اور تربیت یافتہ
تھے، ان اکابر نے ملتِ اسلامیہ کے تحفظ وبقاء احیاء وسربلندی کے
لیے الگ الگ محاذ سنبھالا، حضرت مدنی کا اصل محاذ یہ تھا کہ برصغیر
اور عالم عرب سے انگریز کو نکالا جائے۔ حضرت تھانوی کا اصل کام تصوف کے متعلق، حضرت مجدد الف
ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ کے ادھورے کام کی تکمیل تھی
یعنی تصوف کو بدعات ومحدثات عجمی وبیرونی اثرات سے
پاک وصاف کرکے قرآن وسنت کے عین مطابق بنادیا جائے۔ حضرت مولانا
الیاس کا اصل کام ملت اسلامیہ کو کلمہ
نماز اور دین کی مبادیات تک سے دور ہوگئی تھی ان کے
ایمان کو تازہ اور قوی کرکے انھیں پورے دین پر مستقیم
کردیا جائے، حضرت علامہ انورشاہ کشمیری نے ایسے دور میں عالمِ اسلام
سے حدیث اور علومِ حدیث ختم ہورہے تھے، ملت اسلامیہ میں
حدیث کے علوم کا احیاء کیا وغیرہ وغیرہ یہ سب
ہی اکابر حضرت شیخ الہند
کے شاگرد تھے۔
بانیِ مدرسہ دیوبند مولانا
محمد قاسم نانوتوی
کو ملت اسلامیہ ہند کی بقاء وسربلندی کے لیے خاکہ تیار
کرنے کے بعد زیادہ وقت نہیں ملا،آپ چالیس سال کی عمر ہی
میں جوارِ رحمت میں پہنچ گئے، آپ کے مشن کی تکمیل حضرت شیخ
الہند نے کی۔ آج دیوبندیت
کے لیے اگر کوئی ہستی کامل آئیڈیل ونمونہ ہے تو وہ
حضرت شیخ الہند
کی ذات گرامی ہے، دیوبندیت نام ہے چار اوصاف کا: (۱) علم کامل (۲) عمل
کامل (۳)
تقویٰ کامل (۴) حمیت وغیرت کامل۔ آج ہم علمی عملی
فکری ہراعتبار سے حضرت شیخ الہند کے دور میں ہیں۔ آج
برصغیر کے تمام شعبوں میں کام کرنے والے علماء آپ کے شاگردوں کے تیار
کردہ ہیں۔
یاد رہے حضرت شیخ الہند کی جدوجہد صرف مسلمانان برصغیر
کے لیے نہیں؛ بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے تھی، آپ خوب
سمجھتے تھے کہ برصغیر سے انگریز کے قدم اکھڑتے ہی وہ عرب اور دیگر
مسلم ممالک پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکے گا؛ چنانچہ آپ نے اپنے راز دار
وشاگرد رشید حضرت مولانا عبیداللہ سندھی کو جس مشن پر روانہ کیا تھا وہ
عالمی مشن تھا، جس میں جرمنی (یورپ) سے اسلحہ خلافت عثمانیہ
سے عسکری مدد، افغانستان سے راہ داری وفوجی اور قبائلی
علاقوں سے جاں باز سپاہی لے کر پورے برصغیر کو انگریزوں سے آزاد
کروانا تھا، حکومت کو اپنے خفیہ اداروں سے تھوڑی سی بھنک مل گئی،
اسی لمحہ ڈاکٹر انصاری صاحب نے خفیہ میسج بھیجا، آپ
گرفتاری سے قبل فوراً حجاز نکل جائیں، حجاز میں آپ خلافتِ عثمانیہ
کے ترکی گورنر (مدینہ) غالب پاشا اور ان کے واسطہ سے خلافتِ عثمانیہ
کے وزیر جنگ انور جمال پاشا سے ملاقات کرکے اپنے مشن کو آگے بڑھارہے تھے،
دوسری طرف برطانوی شعبہ انٹلیجنس نے لارنس آف عربیہ کے ذریعہ
عربوں کو ترکوں سے آزادی کا جھانسہ دے کر حجاز میں ترکی کے مقرر
کردہ حکمران شریف مکہ کو غداری پر آمادہ کرلیا۔ خلافت
عثمانیہ کے ان غداروں نے حضرت شیخ الہند اورآپ کے رفقاء کو قید کرکے برطانیہ
کے حوالے کردیا، اس طرح آپ تقریباً ساڑھے تین سال مالٹا میں
قید رہے، آپ نے قید میں جو صعوبتیں اٹھائیں، بڑھاپے
میں آپ کا جسم زارونزار ہوگیا اور متعدد موذی امراض لگ گئے؛
چنانچہ رہا ہوکر ہندوستان واپس ہوئے تو جسم کی ساری توانائی
نچڑچکی تھی، بہ مشکل ساڑھے پانچ ماہ زندہ رہے وہ بھی مسلسل
صاحبِ فراش اور وجع المفاصل، پیچش، بواسیر، تپ لرزہ جیسے متعدی
موذی امراض کا شکار رہ کر؛ لیکن آپ اپنے مقاصد سے ذرا غافل نہیں
ہوئے، آپ کی فکر وکارکردگی دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنی
فکر، حکمت عملی اور پالیسی کے اعتبار سے اس وقت عالم گیریت
(گلوب لائزیشن) کے دور میں تھے جب یورپ محض نیشنلزم (وطنیت)
کے دور میں تھا۔
آپ ۸/جون ۱۹۲۰/ کو مالٹا سے رہا ہوکربحری جہازکے ذریعہ ممبئی
پورٹ پہنچے، ممبئی میں دو روز نہایت مصروف گذارے، بندرگاہ سے
مولانا شوکت علی اور تحریک خلافت کے ہزاروں پرجوش رضاکار شان دار جلوس
کی شکل میں خلافت کمیٹی کے مرکزی دفتر واقع محمد علی
روڈ لے گئے، ممبئی میں بھارت کی اہم سیاسی پارٹیوں
کے لیڈروں اور مشاہیر سے آپ نے ملاقاتیں کیں جن میں
مہاتما گاندھی اور مولانا عبدالباری فرنگی محلی جیسے رہنما شامل تھے۔ واقعہ یہ
ہے کہ اس وقت پورے برصغیر میں حضرت شیخ الہند کے مقام ومرتبہ کا کوئی رہنما نہیں
تھا، نہ صرف طبقہ علماء نے؛ بلکہ کانگریس، کمیونسٹ وشوشلسٹ پارٹیوں
سمیت سب ہی نے آپ کو اپنا عظیم رہنما تسلیم کیا۔
دیوبند جاکر بھی آپ تمام سیاسی لیڈروں سے رابطہ میں
رہے؛ لیکن مدرسہٴ دیوبند کو حکومت کے غیض وغضب سے بچانے
کے لیے آپ نے اپنے رابطے انتہائی خفیہ رکھے، آپ دیوبند میں
مدرسہ سے دور ایک مکان میں سکونت پذیر ہوئے، جسے کوٹھی
کہا جاتا تھا، کانگریس کمیونسٹ وشوشلسٹ اور دیگر پارٹیوں
کے رہنما حضرت شیخ الہند
سے ملاقات ومشورہ کے لیے عموماً گہری رات کے بعد خاموشی سے آتے
اور کوٹھی میں ٹھہر جاتے آپ آدھی رات کے بعد ان سے چپکے سے
ملاقات فرمالیتے، سرحد کے خدائی خدمت گار (خان عبدالغفار خان) کو حکم
تھا کہ دیوبند نہ آئیں؛ بلکہ دیوبند سے پہلے یا بعد کے
اسٹیشن پر اتریں، آپ وہیں پہنچ کر ملاقات کرلیں گے۔
اسارتِ مالٹا کے دوران آپ ملتِ اسلامیہ
کی سربلندی کے لیے مسلسل غور وخوض فرماتے رہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے
ہیں واپسی پر آپ نے اپنی پالیسیوں (حکمت عملی)
کو یکسر تبدیل فرمادیا، آپ کی نئی حکمت عملی
وپالیسی کے دوبنیادی ستون تھے، ایک عسکریت کے
بجائے ڈائیلاگ، آپ نے دیکھا کہ عالمِ کفر دن بدن طاقتور اور عالم
اسلام کمزور وبے بس ہوتا جارہا ہے اوراپنوں (مسلمانوں) میں غداری وبے
وفائی آگئی (ریشمی رومال کی تحریک اپنوں کی
غداری ہی سے ناکام ہوئی) چنانچہ ایک قابل جرنیل کی
طرح آپ نے جنگ کی حکمت عملی تبدیل کی آپ مسلسل دیکھ
رہے تھے کہ تقریباً ڈیڑھ سو سال سے مسلمان جہاد کا نعرہ لگاکر برطانیہ
عظمیٰ سے ٹکراکر پاش پاش ہوتے رہے؛ کیونکہ انگریز
برادرانِ وطن (ہندو) کو ساتھ ملاکر مسلمانوں کی جہادی تحریکوں
کو کچل دیتا تھا، ہندوستان میں ہندو انگریز کا ہاتھ تھام کر ایک
مضبوط اور طاقتور قوم بن رہا تھا اور مسلمان ٹکراٹکراکر ختم ہورہے تھے، اسی
لیے آپ کی نئی حکمت عملی یہ تھی کہ ڈائیلاگ
کے ذریعہ برادرانِ وطن کو آزادی کی جدوجہد میں ساتھ لیا
جائے، آپ جانتے تھے کہ مسلمان تو پیچھے رہ کر بھی اپنے حصہ سے زیادہ
قربانیاں دیں گے؛ مگر ہندو قوم مسلمان لیڈرشپ میں قربانی
نہیں دے گی، آنے والی قیادت کے لیے ہندو (مہاتما
گاندھی) کو آگے کیا؛ کیونکہ جب تک اکثریت ساتھ نہیں
دیتی انگریز کو برصغیر چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا
جاسکتا، آپ نے دوسری حکمت عملی یہ اختیار فرمائی کہ
لارڈ میکالے کے نظام تعلیم نے مسلمانوں کے مقتدر طبقات اور شرفاء کو
انگریز کی سوچ وفکر اور طرز زندگی کا وارث بنادیا تھا، آپ
نے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف دستِ شفقت بڑھاکر انھیں
اپنا ترجمان بنالیا، اس طرح انھیں اپنی سوچ وفکر اورامنگوں کا
وارث بنالیا؛ اس لیے آپ انتہائی ضعف وبیماری کے
باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تشریف لے گئے؛ تاکہ
جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے درد وفکر میں شریک
کرکے انھیں انگریز کے خلاف کھڑا کریں۔ آپ کے ضعف ونقاہت
کا یہ عالم تھا کہ آپ دیوبند سے پالکی میں لیٹ کر
روانہ ہوئے، نقاہت کی وجہ سے خطبہٴ صدارت نہیں پڑھ سکتے تھے جو
مولانا شبیراحمد عثمانی
نے پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:
”میں نے اس پیرانہ سالی
اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے
لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار
ہوں۔“ پھر فرمایا: ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ
میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی
جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں
میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک
قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی
مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔“
اسی خطبہٴ صدارت میں
آپ نے فرمایا: ”آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے
ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی
زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا
فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی
تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا
کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا
ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا
حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم
پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔“
آپ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے
جدید طبقہ کے دل کو مسخر کرلیا؛ چنانچہ جب آپ نے ترکِ موالات یعنی
برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو
یونیورسٹی کے بہت سے طلباء نے یونیورسٹی سے
رشتہ توڑ لیا۔ یہ واقعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۰/ کا ہے، اس طرح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ
مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی حضرت شیخ
الہند کی بدولت وجود میں آئی۔
غرض حضرت شیخ الہند
نے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی
پالیسیاں عطا کیں (۱) ڈائیلاگ
(۲)
جدید تعلیم یافتہ
طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا، اگر ہم ڈائیلاگ کی
راہ پر ہوتے تو آج عالم گیریت کے دور میں اقوامِ عالم سے ڈائیلاگ
کے ذریعہ قرآن کے مطابق انسانی مسائل کا حل پیش کررہے ہوتے، اسی
طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے
قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے
اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح
رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں
تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی
ہے، کاش حضرت شیخ الہند
کو زندگی نے کچھ اور مہلت دی ہوتی تو آپ کسی حد تک قدیم
وجدید کی خلیج پاٹ دیتے، سب سے زیادہ افسوس ناک امر
یہ ہے کہ طبقہٴ علماء نے حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کی حکمتِ عملی
فراموش کردی نہ ڈائیلاگ جاری رہا، نہ جدید تعلیم یافتہ
طبقہ کو قریب کرسکے؛ بلکہ دونوں طبقات میں دن بہ دن فاصلہ بڑھتا گیا۔
حضرت شیخ الہند کے بعد آپ کے شاگردوں (جو بلاواسطہ یا
بالواسطہ تقریباً تمام ہی علماء دیوبند ہیں) آپ کی
جدید پالیسی کے دونوں نکات پر توجہ نہیں دی اگر
طبقہٴ علماء ۱۹۲۰/ کے بعد حضرت شیخ الہند کی پالیسی کے دونوں
نکات پر کاربند ہوکر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنالیتے
تو برصغیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔
بندہ گذشتہ دنوں حضرت شاہ عبدالقادر
رائے پوری
کے ملفوظات پڑھ رہا تھا، حضرت بار بار نہایت رنج وغم سے فرماتے: ”مولوی
ہارگیا“ اوریہ مولوی اس وقت تک ہارتا رہے گا جب تک حضرت شیخ
الہند کی پالیسی پر نہیں
آتا اور عصری تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتا۔
٭٭٭
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ،
جلد: 97 ، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء